لمیٹڈ کمپنی یا لمیٹڈ لایابِلیٹی (Limited Liability Company) سے مراد ایک قانونی وجود (entity) ہے جو چند تاجروں پر مشتمل ہوتا ہے جو ممبر کہلاتے ہیں۔ (ایسی بعض کمپنی کا صرف ایک ممبر بھی ہو سکتا ہے جو تنہا مالک بھی ہوتا ہے۔)[1] ان کا کاروبار کے لیے مختص مجموعی سرمائیہ بیان شدہ ہوتا ہے اور نقصان کی صورت میں کمپنی صرف اس بیان شدہ سرمائیہ کی حد تک ذمہ دار ہوتی ہے۔ کمپنی کو قرضہ فراہم کرنے والے کمپنی کے تاجروں کی ذاتی جائداد پر کوئی حق نہیں جتا سکتے۔ مثال کے طور پر اگر ایسی کمپنی کے کسی تاجر نے کمپنی کے منافع سے ذاتی گھر بنایا اور بعد میں کمپنی دیوالیہ ہو گئی تو قرض خواہ اس گھر کو بیچ کر اپنی رقم وصول کرنے کا حق نہیں رکھتے۔[2] ایسا قانونی وجود صرف حکومت عطا کر سکتی ہے جو قانون بناتی ہے۔
ایسے قانونی وجود (لمیٹڈ کمپنی) کو غیر ذمہ داری یا غبن کی صورت میں حکومت صرف جرمانے کی سزا سنا سکتی ہے اور قید اور پھانسی کی سزا "قانونی وجود" کو دینا ممکن نہیں ہے۔

تاریخ

ترمیم

نوبل انعام یافتہ دانشور اور کولمبیا یونیورسٹی کے صدر نکولس مرے بٹلر سے 1911ء میں کسی نے پوچھا کہ کس سب سے اہم ایجاد نے صنعتی انقلاب کو ممکن بنایا؟ بھاپ کا انجن؟ یا بجلی؟ ان کا جواب تھا کہ نہیں، ایسی ایجادات اس بڑی اور طاقتور دریافت کے آگے کچھ بھی نہیں۔ وہ دریافت جس کی وجہ سے ہم جدید دور میں داخل ہوئے وہ “لمیٹڈ کمپنی” تھی۔[3]
لمیٹڈ کمپنی کو کریڈٹ جاری کرنے اور ہڑپ کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔[2]

برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی دنیا کی پہلی کمپنی تھی جسے 1600ء میں ملکہ الزبتھ نے لمیٹڈ کمپنی کا حق شاہی فرمان (چارٹر) کے ذریعے عطا کیا۔ اس کا مطلب تھا کہ ایسی تجارت کوئی اور نہیں کر سکتا (یعنی مونوپولی)۔ یہ دوسرے ممالک کو لوٹنے، تشدد کرنے اور فراڈ کرنے (معاہدے کر کے توڑنے) کا سرکاری اجازت نامہ تھا جس نے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیا۔

"کمپنیاں قوانین پر اثرانداز ہو سکتی ہیں۔ اربابِ اختیار کو فنڈ کر سکتی ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے برطانوی سیاست دانوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی افادیت سیکھ لی تھی۔ جب 1770 میں قحطِ بنگال کی وجہ سے کمپنی کی آمدنی ختم ہوئی تو برطانوی قانون سازوں نے اسے دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے قانون سازی کی۔ اس میں چائے کی برآمد سے حاصل ہونے والے محصولات پر ٹیکس سے چھوٹ تھی۔ یہ وہ قانون تھا جس کی وجہ سے بوسٹن ٹی پارٹی کا واقعہ ہوا اور امریکا کی برطانیہ سے آزادی کا سبب بنا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ امریکا کی آزادی کی ایک وجہ سیاست دانوں پر کارپوریٹ کا زیادہ اثر تھا۔"[3]


اقتباس

ترمیم

اب اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ انگریزوں کے دو سو سالہ استحصال نے ہندوستان کو کتنا نقصان پہنچایا۔

اس سلسلے میں مختلف لوگوں نے مختلف اندازے لگانے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے زیادہ قرینِ قیاس ماہرِ معاشیات اور صحافی منہاز مرچنٹ کی تحقیق ہے۔ ان کے مطابق 1757 سے لے کر 1947 تک انگریزوں کے ہاتھوں ہندوستان کو پہنچنے والے مالی دھچکے کی کل رقم 2015 کے زر مبادلہ کے حساب سے 30 کھرب ڈالر بنتی ہے۔

ذرا ایک منٹ رک کر اس رقم کا احاطہ کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے مقابلے پر نادر شاہ بے چارے کو دہلی سے صرف 143 ارب ڈالر لوٹنے ہی پر اکتفا کرنا پڑی تھی۔ [4]

اگرچہ سولہویں صدی کے وسط میں بیلجیئم کے شہر Antwerp میں اسٹاک کا کاروبار شروع ہو چکا تھا مگر جدید دور کی اسٹاک مارکیٹ اُس وقت شروع ہوئی جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے لندن میں شیئر بیچنے شروع کیے۔ [5]

ناانصافی یہ نہیں ہے کہ موجودہ نظام میں بینکوں کو کریڈٹ جاری کرنے کی اجازت ملی ہوئی ہے۔ ناانصافی یہ ہے کہ یہ کریڈٹ لمیٹڈ لایابلیٹی کی بنیاد پر جاری ہوتا ہے۔

The unfairness in the current system is not that bank credit is permitted, but that is permitted with limited liability.[6]

یہ کوئی خفیہ راز نہیں ہے کہ سیاست دانوں اور امیر ترین طبقے کے مفادات ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔
After all, it’s no secret that the interests of politicians and the corporate elite align more often than not.[7]

چین کی ایک کمپنی Evergrande Real Estate Group بھی ایک لمیٹڈ کمپنی ہے۔ یہ چین کی زمین اور جائداد سے متعلق دوسری سب سے بڑی کمپنی ہے۔ فورچون 500 کے مطابق یہ دنیا کی 122 ویں بڑی کمپنی ہے۔ 2021ء میں جب اسے اپنے قرضے اور سود چُکانے میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو چین کی حکومت نے لمیٹڈ کمپنی کا دست شفقت ہٹا لیا اور اس کے کھرب پتی مالک Hui Ka Yan کو حکم دیا کہ وہ اپنی ذاتی جائداد بیچ کر اپنا قرضہ ادا کرے۔[8]

اسی طرح Archegos Capital Management کے ڈوبنے پر اپریل 2022ء میں اس کمپنی کے مالک Bill Hwang اور کمپنی کے سابقہ چیف فائینینشیئل آفیسر کو کمپنی کے شیئر کی قیمتیں leverage کر کے حد سے زیادہ بڑھانے کے جرم میں امریکی حکام نے گرفتار کر لیا۔[9] فراڈ اور اسپوفنگ کے جرم میں Bill Hwang کو نومبر 2024ء میں نیویارک میں 18 سال قید کی سزا سنائی گئی۔[10]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم