احساس آزادی
احساس آزادی (انگریزی: Freedom) عام طور سے کسی طرح سے عمل یا کسی تبدیلی کو بغیر کی اڑچن کے کرنے کو کہا جاتا ہے۔ کوئی چیز کو "آزاد" ہوتی ہے وہ ایسی ہوتی ہے کہ وہ آسانی بدلی جا سکتی ہے اور وہ موجودہ حالت میں کسی اڑچن کے بغیر قائم رہتی ہے۔ فسلفے اور مذہب میں یہ آزاد مرضی سے منسوب ہے اور اس میں کوئی غیر واجب یا نامناسب رکاوٹیں شامل نہیں ہوتی ہیں۔ اس میں غلامی کا بھی احساس شامل نہیں ہوتا ہے اور حریت کے تصور سے بڑی حد تک منسلک ہے۔ اس کی وجہ سے کوئی بھی شخص کے پاس یہ آزادی ہوتی ہے کہ وہ ہر وہ کام کر سکے جو عملًا یا نظریاتی طور پر کسی دوسری طاقت سے روکا نہ جائے۔ انسانی دائرے کے باہر، آزادی کا عمومًا کوئی سیاسی یا نفسیاتی پیمانہ ہوتا ہے۔ ایک زنگ آلود قفل پر تیل لگایا جاتا ہے تاکہ چابی کو آزادی سے اس پر گھمایا جا سکے، کم پیداوار کو دور کرنے کے لیے نئی ڈالوں کی کاشت کاری کی جاتی ہے تاکہ نئے ایسادگی کو بڑھنے کی آزادی ملے یا پھر ایک ریاضی دان کوئی مساوات کا مطالعہ کر سکتا ہے تاکہ وہ اس میں شامل آزادی کے درجات کو سمجھ سکے۔ مشینی انجینئری میں "آزادی" ان آزادانہ حرکات کی تعداد کو کہا جاتا ہے جو کسی مجسم یا نظام کو پائے جا سکتے ہیں۔ انھیں آزادی کے درجات کہا جاتا ہے۔
معاشرے میں انسان کو جب کسی عمل، حرکت، پیشے، تعلیم وغیرہ سے روکا جاتا ہے، تو اس سے خود بہ خود ایک احساس محرومی پیدا ہو سکتا ہے۔ اس محرومی کو توڑنا اور سماج غیر بندشی زمرے کے لوگوں میں شامل ہونے کا نام عمومًا احساس آزادی کہلاتا ہے۔ یہ کیفیت بہت سے لوگوں سے مختلف ہو سکتی ہیں جہاں کسی ایسی کچھ بندش نہ ہو۔ اس کی مثال عورتوں سے بھی لی جا سکتی جو کئی ملکوں میں حقوق نپے تلے پیمانے میں حاصل کر رہی ہیں۔ پہلی عرب خاتون غوطہ خور عالیہ حسین مصر کے جنوب مشرقی ساحلی علاقے سے ہیں جو دنیا بھر کے فری ڈائیورز کے لیے مکہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پانی کے اندر رہنے کے اپنے ہی ریکارڈ توڑنے کی لگاتار کوششیں کرتی رہتی ہیں۔ ایسے آزاد غوطہ خور سانس لینے والے آلات کی مدد کے بغیر پانی کے اندر زیادہ دیر تک سانس روکے رکھنے کی مشق کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی پانی کے انر پانچ منٹ تک رہنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔[1] عالیہ کے لیے یہ خود آزادی کا احساس اس لیے ہے کیونکہ اس کے ملک کی دوسری کئی عورتیں اس تجربے سے محروم ہیں۔