ودیاپتی
ودیاپتی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1352ء |
وفات | سنہ 1448ء (95–96 سال) |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | میتھلی زبان ، سنسکرت |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
ودیاپتی (1350ء–1440ء) المعروف مہاکوی ودیاپتی، میتھلی گوکل ودیاپتی، میتھلی اور سنسکرت شاعر، ادیب اور کئی زبانوں کے ماہر تھے۔[1]
ودیاپتی سنسکرت و میتھلی ادب تک ہی محدود نہ تھے ان کی دیگر مشرقی زبانوں میں بھی خدمات ہیں۔[1]
ابتدائی زندگی
[ترمیم]ان کی پیدائش ضلع دربھنگہ کے گاؤں بسفی (موجودہ ضلع مدھوبانی)[2] میں ہوئی۔[3] وہ ایک میتھل النسل گنپتی ٹھاکر کے بیٹے تھے۔ ودیاپتی کے اسم کا معنی عالم ہے۔
ان کی ٹھیک تاریخِ پیدائش میں تذبذب ہے کیونکہ ان کی اپنی تخلیقات میں موجود معلومات میں تضاد پایا گیا ہے۔[4] ان کے والد، تیرہٹ کے راجا رائے گنیشور کے دربار میں پروہت تھے، [4] ان کے اکثر بزرگ درباری تھے، جیسے ان کے پر دادا دیوآدتیہ ٹھاکر، بادشاہ ہری سنگھ دیو کے دربار میں جنگ و امن کے وزیر تھے۔ ودیاپتی نے بذات خود شمالی بہار کے مختلف راجاؤں کے دربار میں شاعر کے طور پر کام کیا۔[4] تاریخ سے معلوم ہے کہ ودیاپتی کی دو بیویاں، تین بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔
ادبی سفر
[ترمیم]ودیاپتی ہی ایک ایسے شاعر ہیں جن کو ہندی میتھلی و بنگالی ان تینوں زبانوں کے بولنے والے مساوی طور پر اپنا مانتے تھے، ساتھ ہی ان کی یہ خصوصیت ہے کہ ان کی تصنیفات سنسکرت، پراکرت اور میتھلی زبانوں میں ملتی ہیں۔[4] ان کے کاموں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مغنی، وزیر، شاعر اور دھرم شاستری تھے۔ علم تاریخ کے عالم اور مضمون نگار و مقالہ نویس بھی تھے اور ان سب کاموں میں یکساں قابلیت رکھتے تھے۔
میتھلی میں بہت سے گیت اور منی منجری ناٹک لکھے ہیں جن میں عام طور پر سنسکرت، پراکرت اور میتھلی ان تینوں زبانوں کو استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے سوائے اس عظیم شاعر نے شری مد بھاگوت کا چربہ اتارا تھا۔ ادبیاتی نقطہ نظر سے "پرش پریکشا" بڑے معرکے کی تصنیف ہے جو اخلاقی تعلیم کے لیے لکھی گئی تھی۔ پنج تنتر اور ہت اپدیش کے مانند اس میں بہت سی کہانیاں ہیں۔ لیکن فرق یہ ہے کہ پرش پریکشا میں کہانیاں ذہنی، اخلاقی اور معاشرتی مختلف سطح کے انسانوں کی ہیں نہ کہ حیوانات کی۔ ودیاپتی کے مذہب کے متعلق لوگوں کے مختلف خیالات ہیں۔ کچھ لوگ اس کو وشنو کہتے ہیں تو چند اس کو شیو سمجھتے ہیں۔ اس مضمون پر بہت کچھ لکھا گیا۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ ان میں فرقہ واری کٹرپن نہیں تھا۔ انھوں نے وشنو، شکتی، شیو، گنگا، گنیش وغیرہ کی عبادت کے متعلق نظمیں لکھی ہیں۔ اگر کہیں رادھا کرشن کی بھگتی کی بات ظاہر ہوتی ہے تو دوسری جگہ شیو بھگتی کا تذکرہ بھی بڑی قابلیت سے کیا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان فرقہ واری جھگڑوں سے بند تر ایک کرم یوگی تھے۔ ودیاپتی کا شمار جدید ہندوستانی زبانوں میں بہت بڑے شاعروں میں کیا جاتا ہے۔ کئی ایک نقطہ نظر سے ان کی تصانیف اعلیٰ معیار کی سمجھی جاتی ہیں۔ ان کا مقابلہ راماین کے مصنف جئے دیو سے کیا جا سکتا ہے اگرچہ ان کی اپنی الگ خصوصیات موجود ہیں۔
ان کی سب سے زیادہ شہرت میتھلی میں لکھے ہوئے بھجنوں کے ذریعہ ہوئی ہے۔ یہ بھجن تعداد میں کتنے ہیں ان کا شمار اب تک نہیں ہو سکا ہے۔ ان کے بھجنوں کا مجموعہ جو آج تک شائع ہوا ہے ان کے متعلق یہ تصفیہ نہیں ہوا کہ انھی کے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ قدیم ویشنو بھجنوں کے مجموعہ میں دوسرے شاعروں کے بھجن کو بھی ودیا پتی کے نام سے شائع کیا جا رہا ہے اور خود ان کی نظموں کے معنی مختلف طور پر لیے جا رہے ہیں۔ مشرق شمالی ہندوستان کے کئی شاعروں نے ودیاپتی کی نظموں سے خیالات اخذ کیے ہیں اور جدید زمانہ میں بھی ان کی میتھلی نظموں سے خیالات ادھار لیے جاتے ہیں۔
تصنیفات
[ترمیم]پراکرت اور سنسکرت میں ان کی مشہور تخلیقات یہ ہیں:
سنسکرت
[ترمیم]پرش پریکشا، درگابھگتی ترنگنی، شیودردسواسار، پری کرما، وبھارگ سار وغیرہ۔
پراکرت
[ترمیم]منی منجری نالگا، کیرتی لتا، کیرتی پتاکا وغیرہ
حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب Pankaj Jha (20 November 2018)۔ A Political History of Literature: Vidyapati and the Fifteenth Century۔ OUP India۔ صفحہ: 2۔ ISBN 978-0-19-909535-3
- ↑ Birth place of Vidyapati آرکائیو شدہ 18 اگست 2015 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ Bisfi.in Website آرکائیو شدہ 2 مئی 2014 بذریعہ وے بیک مشین
- ^ ا ب پ ت Pankaj Jha (20 November 2018)۔ A Political History of Literature: Vidyapati and the Fifteenth Century۔ OUP India۔ صفحہ: 4-7۔ ISBN 978-0-19-909535-3
کتابیات
[ترمیم]- Anand Coomaraswamy، مدیر (1915)، VIDYĀPATI: BANGĪYA PADĀBALI (PDF)، London: The Old Bourne Press