"لمیٹڈ کمپنی" کے نسخوں کے درمیان فرق
شہاب (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
شہاب (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م ←اقتباس |
||
سطر 20: | سطر 20: | ||
<blockquote> |
<blockquote> |
||
اگرچہ |
اگرچہ سولہویں صدی کے وسط میں [[بیلجیئم]] کے شہر Antwerp میں اسٹاک کا کاروبار شروع ہو چکا تھا مگر جدید دور کی اسٹاک مارکیٹ اُس وقت شروع ہوئی جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے لندن میں شیئر بیچنے شروع کیے۔ <!-- |
||
Although stock trading dates back as far as the mid-1500s in Antwerp, modern stock trading is generally recognized as starting with the trading of shares in the East India Company in London... The formation of the East India Company in London eventually led to a new investment model, with importing companies offering stocks that essentially represented a fractional ownership interest in the company, and that therefore offered investors investment returns on proceeds from all the voyages a company funded, instead of just on a single trip. The new business model made it possible for companies to ask for larger investments per share, enabling them to easily increase the size of their shipping fleets. Investing in such companies, which were often protected from competition by royally-issued charters, became very popular due to the fact that investors could potentially realize massive profits on their investments. --><ref>[https://corporatefinanceinstitute.com/resources/knowledge/trading-investing/stock-market/ What is the Stock Market?]</ref> |
Although stock trading dates back as far as the mid-1500s in Antwerp, modern stock trading is generally recognized as starting with the trading of shares in the East India Company in London... The formation of the East India Company in London eventually led to a new investment model, with importing companies offering stocks that essentially represented a fractional ownership interest in the company, and that therefore offered investors investment returns on proceeds from all the voyages a company funded, instead of just on a single trip. The new business model made it possible for companies to ask for larger investments per share, enabling them to easily increase the size of their shipping fleets. Investing in such companies, which were often protected from competition by royally-issued charters, became very popular due to the fact that investors could potentially realize massive profits on their investments. --><ref>[https://corporatefinanceinstitute.com/resources/knowledge/trading-investing/stock-market/ What is the Stock Market?]</ref> |
||
</blockquote> |
</blockquote> |
نسخہ بمطابق 21:05، 23 نومبر 2020ء
لمیٹڈ کمپنی یا لمیٹڈ لایابِلیٹی (Limited Liability Company) سے مراد ایک قانونی وجود (entity) ہے جو چند تاجروں پر مشتمل ہوتا ہے جو ممبر کہلاتے ہیں۔ (ایسی بعض کمپنی کا صرف ایک ممبر بھی ہو سکتا ہے جو تنہا مالک بھی ہوتا ہے۔)[1] ان کا کاروبار کے لیے مختص مجموعی سرمائیہ بیان شدہ ہوتا ہے اور نقصان کی صورت میں کمپنی صرف اس بیان شدہ سرمائیہ کی حد تک ذمہ دار ہوتی ہے۔ کمپنی کو قرضہ فراہم کرنے والے کمپنی کے تاجروں کی ذاتی جائیداد پر کوئی حق نہیں جتا سکتے۔ مثال کے طور پر اگر ایسی کمپنی کے کسی تاجر نے کمپنی کے منافع سے ذاتی گھر بنایا اور بعد میں کمپنی دیوالیہ ہو گئی تو قرض خواہ اس گھر کو بیچ کر اپنی رقم وصول کرنے کا حق نہیں رکھتے۔[2] ایسا قانونی وجود صرف حکومت عطا کر سکتی ہے جو قانون بناتی ہے۔
ایسے قانونی وجود (لمیٹڈ کمپنی) کو غیر ذمہ داری یا غبن کی صورت میں حکومت صرف جرمانے کی سزا سنا سکتی ہے اور قید اور پھانسی کی سزا "قانونی وجود" کو دینا ممکن نہیں ہے۔
تاریخ
نوبل انعام یافتہ دانشور اور کولمبیا یونیورسٹی کے صدر نکولس مرے بٹلر سے 1911ء میں کسی نے پوچھا کہ کس سب سے اہم ایجاد نے صنعتی انقلاب کو ممکن بنایا؟ بھاپ کا انجن؟ یا بجلی؟ ان کا جواب تھا کہ نہیں، ایسی ایجادات اس بڑی اور طاقتور دریافت کے آگے کچھ بھی نہیں۔ وہ دریافت جس کی وجہ سے ہم جدید دور میں داخل ہوئے وہ “لمیٹڈ کمپنی” تھی۔[3]
لمیٹڈ کمپنی کو کریڈٹ جاری کرنے اور ہڑپ کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔[2]
برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی دنیا کی پہلی کمپنی تھی جسے 1600ء میں ملکہ الزبتھ نے لمیٹڈ کمپنی کا حق شاہی فرمان (چارٹر) کے ذریعے عطا کیا۔ اس کا مطلب تھا کہ ایسی تجارت کوئی اور نہیں کر سکتا (یعنی مونوپولی)۔ یہ دوسرے ممالک کو لوٹنے، تشدد کرنے اور فراڈ کرنے (معاہدے کر کے توڑنے) کا سرکاری اجازت نامہ تھا جس نے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیا۔
"کمپنیاں قوانین پر اثرانداز ہو سکتی ہیں۔ اربابِ اختیار کو فنڈ کر سکتی ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے برطانوی سیاستدانوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی افادیت سیکھ لی تھی۔ جب 1770 میں قحطِ بنگال کی وجہ سے کمپنی کی آمدنی ختم ہوئی تو برطانوی قانون سازوں نے اسے دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے قانون سازی کی۔ اس میں چائے کی برآمد سے حاصل ہونے والے محصولات پر ٹیکس سے چھوٹ تھی۔ یہ وہ قانون تھا جس کی وجہ سے بوسٹن ٹی پارٹی کا واقعہ ہوا اور امریکہ کی برطانیہ سے آزادی کا سبب بنا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کی آزادی کی ایک وجہ سیاستدانوں پر کارپوریٹ کا زیادہ اثر تھا۔"[3]
اقتباس
اب اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ انگریزوں کے دو سو سالہ استحصال نے ہندوستان کو کتنا نقصان پہنچایا۔
اس سلسلے میں مختلف لوگوں نے مختلف اندازے لگانے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے زیادہ قرینِ قیاس ماہرِ معاشیات اور صحافی منہاز مرچنٹ کی تحقیق ہے۔ ان کے مطابق 1757 سے لے کر 1947 تک انگریزوں کے ہاتھوں ہندوستان کو پہنچنے والے مالی دھچکے کی کل رقم 2015 کے زرمبادلہ کے حساب سے 30 کھرب ڈالر بنتی ہے۔
ذرا ایک منٹ رک کر اس رقم کا احاطہ کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے مقابلے پر نادر شاہ بےچارے کو دہلی سے صرف 143 ارب ڈالر لوٹنے ہی پر اکتفا کرنا پڑی تھی۔ [4]
اگرچہ سولہویں صدی کے وسط میں بیلجیئم کے شہر Antwerp میں اسٹاک کا کاروبار شروع ہو چکا تھا مگر جدید دور کی اسٹاک مارکیٹ اُس وقت شروع ہوئی جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے لندن میں شیئر بیچنے شروع کیے۔ [5]
مزید دیکھیے
- برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی
- کریڈٹ
- فریکشنل ریزرو بینکنگ
- چارہ ڈال کر گھیرنا
- ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی
- جوہن لا (معاشیات دان)
- بندوبست دوامی
- سرکاری ڈاکو