مندرجات کا رخ کریں

ورقہ بن نوفل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ورقة بن نوفل
تخطيط لاسم ورقة بن نوفل ومع دعاء رضي الله عنه

معلومات شخصیت
مقام پیدائش مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 610ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش حجاز   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نسل العرب
آبائی علاقہ مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P66) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طبی کیفیت عمى
والد نوفل بن أسد
والدہ هند بنت أبي كبير
بھائی الاسود بن نوفل
رشتے دار خديجة بنت خويلد , عدي بن خويلد العوام بن خويلد . حزام بن خويلد عمرو بن خويلد , هالة بنت خويلد ,رقيقة بنت خويلد , خالدة بنت خويلد ,الطاهرة بنت خويلد ,
خاندان بنو أسد بن عبد العزى
عملی زندگی
پیشہ معلم ،  منصف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اللغة العربية
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجۂ شہرت تبشير الرسول محمد بالنبوة

ورقہ بن نوفل، خدیجہ الکبری کے چچازاد بھائی مکہ مکرمہ میں جاہلیت کے زمانے میں بھی دین کے بہت بڑے عالم تھے،

نام

[ترمیم]

اُن کا پورا نام ورقہ بن نوفل بن اسید (یا اسد) بن عبد العزی بن قصی آیا ہے۔

تلاش حق

[ترمیم]

دین حق کی تلاش میں انجیل کا مطالعہ کیا متاثر ہو کر جوانی میں نصرانی مذہب اختیار کر لیا تھا۔ عربی اور عبرانی زبان کا ماہر تھا۔ جوانی میں ہی جوا شراب اور نشہ آور چیزوں سے کنارہ کشی اختیار کی۔

پہلی وحی

[ترمیم]

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر جب پہلی دفعہ وحی نازل ہوئی اور وہ گھبرائے تو اُن کی زوجہ محترمہ خدیجہ الکبری آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو لے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جنھوں نے بائبل میں پڑھی ہوئی پیشن گوئیوں کی مدد سے صاف پہچان لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔[1]

حدیث میں ذکر

[ترمیم]

ورقہ بن نوفل کا ذکر احادیث کی ان روایات میں ہے:

  1. ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ سب سے پہلی وحی جو رسول اللہ پر اترنی شروع ہوئی وہ اچھے خواب تھے، جو بحالت نیند رسول اللہ دیکھتے تھے، چنانچہ جب بھی آپ ﷺ خواب دیکھتے تو وہ صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہوجاتا، پھر تنہائی سے رسول اللہ کو محبت ہونے لگی اور غار حرا میں تنہا رہنے لگے اور قبل اس کے کہ گھر والوں کے پاس آنے کا شوق ہو وہاں تحنث کیا کرتے، تحنث سے مراد کئی راتیں عبادت کرنا ہے اور اس کے لیے توشہ ساتھ لے جاتے پھرخدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس واپس آتے اور اسی طرح توشہ لے جاتے، یہاں تک کہ جب وہ غار حرا میں تھے، حق آیا، چنانچہ ان کے پاس فرشتہ آیا اور کہا پڑھ، آپ نے فرمایا کہ میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، رسول اللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے فرشتے نے پکڑ کر زور سے دبایا، یہاں تک کہ مجھے تکلیف محسوس ہوئی، پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، پھر دوسری بار مجھے پکڑا اور زور سے دبایا، یہاں تک کہ میری طاقت جواب دینے لگی پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، رسول اللہ فرماتے ہیں کہ تیسری بار پکڑ کر مجھے زور سے دبایا پھر چھوڑ دیا اور کہا پڑھ! اپنے رب کے نام سے جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا، پڑھ اور تیرا رب سب سے بزرگ ہے، رسول اللہ ﷺ نے اسے دہرایا اس حال میں کہ آپ کا دل کانپ رہا تھا چنانچہ آپ خدیجہ بنت خویلد کے پاس آئے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو، تو لوگوں نے کمبل اڑھا دیا، یہاں تک کہ آپ کا ڈر جاتا رہا، خدیجہ بنت خویلد سے سارا واقعہ بیان کر کے فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے، خدیجہ بنت خویلد نے کہا ہرگز نہیں، خدا کی قسم، اللہ تعالیٰ رسول اللہ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا، رسول اللہ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبتیں اٹھاتے ہیں، پھرخدیجہ بنت خویلد رسول اللہ کو لے کر ورقہ بن نوفل بن اسید بن عبد العزی کے پاس گئیں جوخدیجہ بنت خویلد کے چچا زاد بھائی تھے، زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہو گئے تھے اور عبرانی کتاب لکھا کرتے تھے۔ چنانچہ انجیل کو عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے، جس قدر اللہ چاہتا، نابینا اور بوڑھے ہو گئے تھے، ان سے خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا اے میرے چچا زاد بھائی اپنے بھتیجے کی بات سنو آپ سے ورقہ نے کہا اے میرے بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو؟ تو جو کچھ رسول اللہ ﷺ نے دیکھا تھا، بیان کر دیا، ورقہ نے آپ سے کہا کہ یہی وہ ناموس ہے، جو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمایا تھا، کاش میں نوجوان ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا، جب تمھاری قوم تمھیں نکال دے گی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے جواب دیا، ہاں! جو چیز تو لے کر آیا ہے اس طرح کی چیز جو بھی لے کر آیا اس سے دشمنی کی گئی، اگر میں تیرا زمانہ پاؤں تو میں تیری پوری مدد کروں گا، پھر زیادہ زمانہ نہیں گذرا کہ ورقہ کا انتقال ہو گیا اور وحی کا آنا کچھ دنوں کے لیے بند ہو گیا، ۔[2]
  2. عائشہ بنت ابی بکر سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دھڑکتے دل سے خدیجہ بنت خویلد کے پاس واپس آئے وہ آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور ورقہ نصرانی ہو گئے تھے انجیل کو عربی میں پڑھا کرتے تھے تو ورقہ نے پوچھا آپ نے کیا دیکھا؟ آنحضرت نے انھیں سب بتا دیا تو ورقہ نے کہا یہ وہی ناموس (یعنی فرشتہ) ہے جو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ پر نازل فرمایا تھا اور اگر مجھے تمھارا زمانہ ملے گا تو میں تمھاری زبردست مدد کروں گا الناموس یعنی وہ راز دار جسے آدمی اپنے ایسے راز بتا دے جنہیں وہ ہر ایک پر ظاہر نہیں کرتا۔[3]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. مختصر اردو دائرہ معارف اسلامیہ، صفحہ 876،دانش گاہ پنجاب لاہور
  2. صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 3
  3. صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 628

بیرونی روابط

[ترمیم]